ماضی قریب میں چند
دوستوں نے ا ذان میں ذکرِ شہادتین کے وقت انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانے
کا ذکر کرتے ہوئے اپنے زعم میں انکشاف کیا کہ اس مسئلہ میں
خاتمة المحققین علامہ شامی
، علامہ طحطاوی
اور صاحب جلالینکا فتویٰ بھی یہی ہے، جب یہ
پروپیگنڈا زور وشور سے کیا جانے لگا تو خیال ہوا کہ مذکورہ
مسئلہ متعلقہ کتب میں دیکھا جائے۔
چناں چہ ! مذکورہ کتب کی مراجعت
کے بعد معلوم ہوا کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ ان حضرات کا فتویٰ
”انگوٹھے چومنے کے جواز “کا ہے، جب کہ حقیقت اِس کے برخلاف ہے، وہ اِس طرح
کہ ”حاشیہ ابن عابدین “ میں علامہ شامی رحمہ اللہ نے دو
کتب سے دو اقوال نقل کیے ہیں، اُن کا اپنا کوئی تجزیہ یا
فتویٰ اِس جگہ مذکور نہیں ہے، اُن دونوں عبارتوں کا تجزیہ
اور اُن کی حیثیت آگے آرہی ہے، ان کا طرزِ تحریرخود
مبتدعین کے خلاف ایک مضبوط دلیل کی حیثیت بن
رہاہے۔
علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کی
عبارت ان کی کتاب ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی
الفلاح“ میں موجود ہے، علامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے بھی دو کتابوں
سے دو عبارتیں نقل کی ہیں۔ اور آخر میں ایک
جملہ اپنی طرف سے بطورِ نتیجہ یا تجزیہ کے ذکر کیا
ہے، اِن دونوں کتابوں سے منقول عبارتوں اور علامہ شامی رحمہ اللہ کے تجزیے
سے متعلق فقہاء ِ کرام کی تحقیقات اور آراء آگے آ رہی ہیں۔
”صاحب جلالین کا فتویٰ“
کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ صاحب ِ جلالین ، یعنی
: علامہ جلال الدین محلّی رحمہ اللہ نے ”تفسیرِ جلالین “میں
کہیں بھی ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی۔
البتہ ”تفسیر ِجلالین “میں
سورہ ٴ أحزاب کی آیت نمبر : ۵۶ کے حاشیہ میں اس موضوع پر کچھ منقول ہے، تفسیرِ
جلالین کے اس حاشیہ سے متعلق (جو ہماری ہندی مطبوعہ تفسیرِ
جلالین پر مطبوع ہے) پہلی بات تو جاننے کی یہ ہے کہ یہ
حاشیہ تیس کے قریب مختلف تفاسیر سے منتخب کر دہ ہے؛ لیکن
مُحَشِّی کون ہے؟ اِس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے،
شاید یہی وجہ ہے کہ اس حاشیہ میں بہت سی
جگہوں میں رطب ویابس اور غیر مستند باتیں بھی موجود
ہیں؛ البتہ حواشی کے آخر میں محوَّلہ تفسیر کا حوالہ
مذکور ہوتا ہے۔
چناں چہ! مبحوث عنہا حاشیہ ”تفسیر
روح ُالبیان “سے نقل کر دہ ہے،ملاحظہ ہو:( الشیخ إسماعیل حقي
البروسي رحمہ اللّٰہکی تفسیر :روح البیان ، سورة الأحزاب،
رقم الآیہ: ۵۶، ۷/ ۲۲۸، ۲۲۹،
مطبعہ عثمانیہ)لہٰذا ! اس تیسری عبارت کے بارے میں
اصل نسبت الشیخ إسماعیل حقي البروسي رحمہ اللہ کی تفسیر
:”روح البیان“ کی طرف کی جانی چاہیے،نہ کہ تفسیر
جلالین کی طرف؛ چناں چہ ! تفسیر روح ُ البیان کے اس مقام
میں بھی دو کتابوں سے استحباب کی عبارت منقول ہے، اُس کے بعد دو
کتابوں سے اس عمل کے موضوع ہونے کی عبارت منقول ہے، آخر میں صاحب ِ
روح البیان کا اپنا کلام ہے، جو استحباب کی طرف مُشیر ہے۔
چناں چہ!ذیل میں پہلے
متعلقہ کتب کی عبارات اور پھر ان پر تجزیہ پیش کیا جائے
گا۔
حاشیہ
ابن عابدین میں ہے:
” یستحب
أن یقال عند سماع الأولیٰ من الشھادة: ”صلّی اللہ علیک
یا رسول اللہ“، وعند الثانیة منھا: ”قَرَّتْ عینِيْ بِک یا
رسولَ اللہ“، ثم یقول: ”اللّھم مَتِّعنِيْ بالسمع والبصر“ بعد وضعِ ظُفْرَيْ
الإبھامَین علی العینین، فإنّہ علیہ السلام یکون
قائداً لہ إلیٰ الجنة، کذا في ”کنز العباد“ اھ قھستاني، ونحوُہ في
”الفتاویٰ الصوفیة“․
وفي کتاب
الفردوس: ”من قبَّل ظُفرَيْ إبھامَیہ عند سماعِ ”أَشھد أَنَّ محمداً رسول
اللہ“ في الأذان، أنا قائدُہ ومُدخِلُہ في صُفوفِ الجنّة“․ وتمامُہ في حواشي البحر للرملي عن المقاصد الحسنة للسخاوي․
وذکر ذالک
الجرَّاحيُّ وأطال، ثم قال: ”ولم یصِحَّ في المرفوع من کل ھٰذا شییٴٌ“․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة، باب الأذان:۲/۶۲۸، دار الثقافة والتراث، دِمَشق)
ترجمہ:(اذان میں )پہلی
شہادت کے سننے کے وقت ”صلّی اللہ علیک یا رسول اللہ“ اور دوسری شہادت کے سننے کے وقت ”قَرَّتْ عینِيْ بِک یا
رسولَ اللہ‘ ‘(اے اللہ کے رسول!
آپ کے سبب میری آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوئی ) کہنامستحب ہے، پھر
اس کے بعد دونوں انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھ کر یہ دعا کرے: ”اللّھم مَتِّعنِيْ بالسَمْعِ
وَالبَصَرِ“ (اے اللہ ! مجھے
قوت ِ سماعت اور بینائی کی دولت نواز دے) اس لیے کہ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو جنت کی طرف لے جائیں
گے، دیکھیے: ”کنز العباد“ اور ”قہستانی“۔ اور اسی
طرح ”فتاویٰ صوفیہ “میں ہے۔
اور ”کتاب الفردوس“ میں ہے:” جس
شخص نے اذان میں ”أَشھدُ أَنَّ محمداً رّسولُ اللہ“ سنتے وقت اپنے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوما ، میں
اسے لے کر جنت کی صفوں میں داخل کروں گا“، اور اس بحث کی پوری
تفصیل علامہ سخاوی
کی کتاب ”المقاصد الحسنة“ کے حوالے سے علامہ رملی کے البحر الرائق کے حواشی میں
ہے۔جراحی
نے اسے تفصیل سے بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ ” اس بحث میں کوئی
بھی مرفوع روایت صحیح نہیں ہے“۔
حاشیة
الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
”ذکر القھستاني عن کنز العباد
أنہ، یستحب أن یقول عند سَماعِ الأولیٰ من الشھادتین
للنبي صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیک یا رسولَ
اللہ، وعند سماع الثانیة: قرت عیني بک یا رسول اللہ، اللھم
متعني بالسمع، والبصر بعد وضع إبھامیہ علی عینیہ فإنہ صلی
اللہ علیہ وسلم یکون قائدًا لہ في الجنة․
وذکر الدیلمي
في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق رضي اللہ عنہ مرفوعاً: ”مَن مسَح
العینِ بباطن أنملة السبابتین بعد تقبیلھما عند قول الموٴذن
”أشھد أن محمدا رسول اللہ“، وقال: ”أشھد أن محمداً عبدہ ورسولہ، رضیت باللہ
رباً وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ صلی اللہ علیہ وسلم نبیِّاً
“، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ ․وکذا رُوِي عن الخضر علیہ
السلام، وبمثلہ یُعمَل في الفضائل․(حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاة،
باب الأذان: ۱/۲۰۵، ۲۰۶، دارالکتب العلمیة)
ترجمہ: ”قہستانی نے ”کنز العباد“ سے نقل کیا ہے کہ
پہلی شہادتِ رسالت کے سننے کے وقت اپنے دونوں انگوٹھے آنکھوں پر رکھ کر ”صلّی اللہ علیک یا
رسول اللہ“اور دوسری
شہادت کے سننے کے وقت ”قَرَّتْ عَیْنِيْ بِکَ یا رسولَ اللہ، اللّھم
مَتِّعْنِيْ بالسمعِ، والبصرِ‘ ‘کہنا
مستحب ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے
والوں کو جنت میں لے جائیں گے۔
دیلمی نے ”کتاب الفردوس“ میں حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث نقل کی ہے: ”جو شخص
موٴذن کی اس شہادت ”أَشْھَد أنَّ محمداً رسولُ اللہ“ سنتے وقت اپنی انگلیوں کے پوروں کو چوم کر اسے اپنی
آنکھوں پر پھیرے اور یہ کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں
کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، میں
اللہ تعالیٰ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوا، تو اس کے لیے میری
شفاعت واجب ہو گئی۔ اور اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام سے
روایت کیا گیا ہے، اور فضائل میں اس طرح کی باتوں
پر عمل کر لیا جاتا ہے“۔
تفسیر
جلالین کے حاشیہ (منقول از روح البیان )میں ہے:
”ثم إن للصلاة والتسلیمات
مواطن، فمنھا: أن یصلي عند سماع إسمہ الشریف في الأذان، قال القھساني
في ”شرحہ الکبیر“ نقلاً عن ”کنز العباد“: إعلم أنہ یستحب أن یقال
عند سماع الأولیٰ من الشھادة: ”صلی اللہ علیک یا
رسول اللہ“، وعند سماع الثانیة: ”قرة عیني بک یا رسول اللہ“، ثم
یقال: اللھم متعني بالسمع والبصر، بعد وضع ظفر الإبھامین علی
العینین؛ فإنہ قاعدٌ لہ إلی الجنة ۔
وحضرت شیخ امام ابو طالب محمد بن
علی المکی رفع اللہ درجتہ در ”قوت القلوب“ روایت کردہ از ابن عیینہ
رحمہ اللہ کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بمسجد در آمد،
وابو بکر رضی اللہ عنہ بظھر ابہامین چشم خود را مسح کرد، وگفت: قرة عیني بک یا
رسول اللہ وچون بلال رضی اللہ عنہ از اذان فراغتی
روی نمود حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمود کہ ای
ابا بکر ہر کہ بگوید آنچہ تو گفتی از روی شوق بلقای من
وبکند آنچہ تو کردی خدای در گزار وگناھاں ویرا آنچہ باشد نو
وکہنہ خطا وعمد ونہان وآشکار ا در مضمرات برین وجہ نقل کردہ․
وقال علیہ السلام: ”من
سمِع إسمي في الأذان، فقبَّل ظفري إبھامیہ، ومسح علی عینیہ
لم یھم أبداً“․
قال الإمام
السخاوي في ”المقاصد الحسنة“: إن ھٰذا الحدیث لم یصح في
المرفوع؛ - والمرفوع من الحدیث: ھو ما أخبر الصحابي عن قول رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم-
وفي شرح الیماني:”ویکرہ
تقبیل الظفرین، ووضعھما علی العینین؛ لأنہ لم یرِد
فیہ، والذي ورد فیہ لیس بصحیح“․
یقول
الفقیر: ”قد صَحَّ من العلماء تجویزُ الأخذِ بالحدیثِ الضعیف
في العملیات، فکون الحدیث المذکور غیر مرفوع لا یستلزم
ترک العمل بمضمونہ، وقد أصاب القھستاني في القول باستحبابہ، وکفانا الإمام المکي
في کتابہ؛ فإنہ قد شھد الشیخ السھروردي في ”عوارف المعارف“ بوفور علمہ وکثرة
حفظہ وقوة حالہ، وقیل جمیع ما أوردہ في کتابہ ”قوت القلوب“، ملخصاً من
الروح البیان․ ولقد فَصَّلْنا الکلامَ
وأطْنَبْنَاہ؛ لأن بعضَ الناس ینازِعُ فیہ؛ لقلة علمہ“․ (حاشیة ٌمطبوعة ٌعلی تفسیرِ الجلالین،
سورہ الأحزاب، رقم الآیة:۵۶، ۳/۷۹،۸۰،مکتبة البشریٰ وص:۳۵۷، قدیمي ومنقولة ٌمن تفسیرِ
روحِ البیان للشیخ إسماعیل حقي البروسي رحمہ اللہ، سورة
الأحزاب، رقم الآیہ: ۵۶، ۷/ ۲۲۸، ۲۲۹، مطبعة عثمانیة)
ترجمہ: ” پھر دُرود وسلام کے کچھ مواقع
ہیں ، من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ اذان میں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کا نامِ نامی سن کر ان پر دُرود بھیجے ۔
قہستانی
نے ”کنز العباد“ سے نقل کرتے ہوئے اپنی ”شرح کبیر“ میں ذکر کیا
ہے کہ جان لو کہ پہلی شہادت کے سننے کے وقت اپنے دونوں انگوٹھے دونوں آنکھوں
پر رکھنے کے بعد ”صلی اللہُ علیک یا رسولَ اللہ“ اور دوسری شہادت کے سننے کے وقت ”قُرَّةُ عَیْنِيْ بِکَ یا
رسولَ اللہ“ (اے اللہ کے
رسول! میری آنکھوں کی ٹھنڈک آپ سے ہے) کہنا مستحب ہے، پھر اس کے
بعد یہ دعا کی جائے: ”اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِيْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے والے کو
جنت میں لے جائیں گے۔
حضرت شیخ امام ابو طالب محمد بن
علی المکی
نے ابن عیینہسے ”قوت القلوب“ میں روایت کیا ہے کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور حضرت ابو بکر رضی
اللہ عنہ نے انگوٹھوں سے اپنی آنکھوں پر مسح کیا، اور کہا ”قُرَّة ُعَیْنِيْ بِکَ یا
رسولَ اللہ“ اور جب حضرت بلال
رضی اللہ عنہ اذان سے فارغ ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ اے ابوبکر!ہر وہ شخص جو میری ملاقات کے شوق میں
وہ کلمات کہے جو تم نے کہے، اور جو فعل تم نے کیا وہ بھی کرے تو اللہ
تعالیٰ اس کے نئے ، پرانے، خطاء ً، عمداً، پوشیدہ اور ظاہر ہر
طرح کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں، ”مضمرات“ میں اسی
طرح نقل کیا گیا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: ”جس شخص نے میرا نام اذان میں سنا، پھر اپنے دونوں
انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوما اور اپنی آنکھوں پر پھیرا ، وہ کبھی
غمگین نہیں ہو گا“۔ امام سخاوی نے ”المقاصد الحسنة“ میں فرمایاکہ
: ” یہ حدیث مرفوعاً ثابت نہیں ہے“ اور مرفوع حدیث وہ
کہلاتی ہے جس میں صحابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے کسی قول کی خبر دے۔
اور ”شرح الیمانی“ میں
ہے: ”دونوں(انگوٹھوں کے ) ناخنوں کو چومنا اور انھیں آنکھوں پر رکھنا، مکروہ
ہے؛ اس لیے کہ اس سلسلے میں کوئی چیز وارد نہیں ہے،
اور جو کچھ وارد ہے وہ صحیح نہیں “۔
فقیر (شیخ اسماعیل حقی)کہتا ہے کہ : ”(فضائلِ)اعمال کے باب میں
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا جواز علماء سے صحت کے ساتھ ثابت ہے، پس
مذکورہ حدیث کا غیر مرفوع ہونا، اُس کے مضمون پر عمل نہ کرنے کو
مستلزم نہیں۔ اور قہستانی اپنی استحباب کی رائے میں
درست ہیں، اور ہمارے لیے امام مکی کی اپنی کتاب میں ذکر
کردہ بات کافی ہے؛ اس لیے کہ شیخ سہر وردی نے ”عوارف المعارف“ میں ان (امام
مکی)کی وسعتِ علم، کثرت ِ حفظ اور قوتِ
حالی کی شہادت دی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ جو کچھ
انہوں نے اپنی کتاب ”قوت القلوب“ میں ذکر کیا ہے، وہ ”روح البیان“
کی تلخیص ہے، اور ہم نے (اس موضوع پر) کافی تفصیلی
کلام کر لیا ہے؛ اس لیے کہ بعض لوگ اس مسئلہ میں اپنی کم
علمی کے سبب تنازع کرتے ہیں“۔
قابلِ
تحقیق اُمور
مذکورہ عبارات دیکھنے کے بعد دو
اُمور قابل ِتحقیق معلوم ہوتے ہیں:
ٍ (۱) ․․․․․․․․․
اذان واقامت میں
انگوٹھا چوم کر آنکھوں پر لگانے کا حکم
ٍٍ (۲)․․․․․․․․․
مذکورہ کتب میں
استحباب کا قول مذکور ہونا
پہلی بحث: اذان واقامت میں
شہادتین کے وقت انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانے کے بارے میں قول ِ فیصل
یہ ہے کہ مذکورہ عمل نہ مسنون ہے اور نہ ہی مستحب؛ بلکہ بدعت ہے۔
دوسری بحث: چند کتبِ فقہ میں
اس فعل کے استحباب کا ذکر۔ اس میں دو پہلو قابلِ ذکر ہیں:
۱۔ مذکورہ ”قولِ استحباب “کے لیے مستدل حدیث کی
حیثیت۔
۲۔اس حدیث کے ماخذ کا بیان۔
مذکورہ تینوں کتب میں جس حدیث
کو بنیاد بنایا گیا ہے، ”حاشیة الطحطاوی علی
مراقی الفلاح“ اور ”المقاصد الحسنة“میں الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ
موجود ہے، ذیل میں وہ روایت ”حاشیة الطحطاوی علی
مراقی الفلاح “سے نقل کی جاتی ہے:
وذکر الدیملي
في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق ص مرفوعاً:”مَن مسَح العین
بباطن أنملةِ السبابتین بعدَ تقبیلھما عند قول الموٴذن ”أشھد أن
محمدًا رسولُ اللہ“، وقال: ”أشھد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ، رضیت باللہ رباً
وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ ا نبیِّاً“، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ․
اور دوسری روایت جس کو بنیاد
بنایا جاتا ہے، جس کی طرف علامہ طحطاوی نے اشارہ کیا ہے اور علامہ سخاوی
نے اسے مکمل ذکر کیا ہے، وہ یہ
ہے:
عن خضر علیہ السلام: أنہ
من قال حین یسمع الموٴذن، یقول:”أشھد أن محمداً رسولُ
اللہ“ مرحباً بحبیبي، وقرة عینيمحمد ا، ثم یُقبّل إبھامیہ
ویجعلھما علی عینیہ، لم یرمَد أبداً․
ان میں سے پہلی حدیث
کے بارے میں علامہ سخاوی
، ملا علی قاری،
علامہ طاہر پٹنی
اور علامہ محمد الامیر الکبیر المالکینے
”لا یصح“ کہتے ہوئے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنة، حرف المیم،
رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیة)
( الموضوعات
الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرة
الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیة،
ملتان)
(النخبة البھیّة
في الأحادیث المکذوبة علی خیر البریة،رقم الحدیث:۳۱۶، ص:۱۷، المکتب الإسلامي)
اور پھر اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے
علامہ سخاوی
اور علامہ شامی
نے علامہ جرّاحی
کا قول نقل کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا ہے :” مجموعہ احادیث
میں اس مسئلہ کے بارے میں کوئی صحیح ، مرفوع حدیث
نہیں ہے“، چنانچہ فرماتے ہیں: ”ولم یصِحَّ في المرفوع
من کل ھٰذا شییٴٌ“ ، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنة، حرف المیم،
رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیة)
(حاشیة
ابن عابدین، کتاب الصلاة، باب الأذان:۲/۶۲۸، دار الثقافة والتراث، دِمَشق)
اور” المقاصد الحسنہ “کی تعلیقات
میں تو واضح لکھا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ مجموعہ احادیث
میں اس مسئلہ کے بارے میں کوئی صحیح ، مرفوع حدیث
نہیں ہے؛ بلکہ اس عنوان سے متعلق سب مرویات موضوع اور بے سند ہیں
، ملاحظہ ہو:
”وحکی الخطابي في شرح
مختصرة خلیل حکایة أخرٰغیرَ ما ھنا وتوسع في ذٰلک
ولا یصح شییٴ من ھذا في المرفوع کما قال الموٴلف،
بل کلہ مختلق موضوع“․(المقاصد الحسنة، حرف المیم،
رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰،۴۴۱، دارالکتب العلمیة)
ایک
ممکنہ اعتراض کا جواب
اور اگر یہ کہا جائے کہ چلو
مرفوعاًنہ سہی ، موقوفاً تو بہر حال ثابت ہے ،اور اتنی بات عمل کے لیے
کافی ہوتی ہے، جیسا کہ ملا علی قاری نے ”الموضوعات الکبریٰ“میں
لکھا ہے، ملاحظہ ہو:
”قلت: وإذا ثبت رفعہ علی
الصدیق، فیکفي العمل بہ لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”علیکم
بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین“․(الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم
الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)․
ترجمہ:” جب اس حدیث کا رفع حضرت
ابو بکر صدیق ص تک صحیح ہو گیا، تو حدیثِ نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم : ”علیکم
بسنتي وسنة الخلفاء الراشدین“ کی وجہ سے اتنا عمل کے لیے کافی ہے“۔
ملا
علی قاری
کی ایک بات کی تحقیق
تو اس بارے میں عرض یہ ہے
کہ اس مقام پر ملاعلی قاری
سے ذہول ہو گیا ہے؛ اس لیے کہ اس ”حدیث“کی تو سند ہی
ثابت نہیں ہے، تو پھر اس کے موقوفاً صحیح یا ثابت ہونے کا کیا
مطلب؟! یعنی یہ بات نہیں ہے کہ اگر مرفوع حدیث صحیح
نہیں تو موقوف صحیح ہو گی؛ کیوں کہ یہ تو روایت
ہی بے سند ہے۔
ملا علی قاری کی اس بات کے بارے میں علامہ
عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”ومِن العجیب أن الموٴلف
لمّا نقل في الموضوعات الکبریٰ قول السخاوي: ”وأوردہ الشیخ أحمد
الرّداد في کتابہ:”موجبات الرحمة“ بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ عن
الخضر علیہ السلام، وکل ما یروی في ھٰذا، فلا یصح
رفعہ البتة“، تعقبہ بقولہ :”وإذا ثبت رفعہ إلیٰ الصدیق، فیکفي
العمل بہ لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”علیکم بسنتي وسنة الخلفاء
الراشدین“، فکان تعقبہ لا معنیٰ لہ إلا الخطاء، إذ لم یصح
إسنادہ إلیٰ أبي بکرٍ“․(المصنوع في معرفة الحدیث
الموضوع، رقم الحدیث: ۳۰۰، ص: ۱۶۹، ۱۷۰،سعید)
ترجمہ:”عجیب بات یہ ہے کہ
موٴلف نے (مذکورہ حدیث کے بارے میں
) موضوعات کبریٰ میں علامہ سخاوی کا قول نقل کیا (جس سے حدیث
کا موضوع ہونا ثابت ہوتا ہے)، اور خود ہی اس (قول ذکر کرنے ) کے بعد اپنا یہ
قول (جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک صحیح
ہو گیا، تو حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم: ”علیکم بسنتي وسنة
الخلفاء الراشدین“ کی
وجہ سے اتنا عمل کے لیے کافی ہے)ذکر کیا ہے، پس اُن کے اپنے بعد
والے قول کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں، سوائے اس کے کہ
اُن سے خطا ہو گئی ہے؛ اس لیے کہ اس حدیث کی تو حضرت ابو
بکر صدیقص تک بھی سند ثابت نہیں ہے۔
علم
ِ حدیث میں مذکورہ روایت کی حیثیت
اور اگر کوئی اس حدیث کو
”حسن“ یا ”ضعیف“ مانے(جیسا کہ بعض اہلِ بدعت کا قول ہے: ” صحیح
نہ ہونے سے کسی حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا؛ کیوں
کہ ”صحیح“کے بعد ”حسن“ کا درجہ باقی ہے، لہٰذا یہ حدیث
اگر ”حسن“بھی ہو تو بھی عمل کے لیے کافی ہے“)تو بھی
اس بات کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے ؛ اس لیے کہ کتبِ ضعفاء میں
یا کتب موضوعات میں جب کسی حدیث کے بارے میں ”لا یصحّ“ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ”موضوع“ ہی ہوتا ہے ،
نہ کہ حسن یا ضعیف۔الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ نے
”المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع“ کے مقدمہ میں اس بات کو تفصیل
سے ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو:
”قولھم في الحدیث:”لا یصح“،
أو ”لا یثبتُ“ صلی اللہ علیہ وسلم ونحو ھٰذہ التعابیر
إذا قالوہ في کتب الضعفاء أو الموضوعات، فالمراد بہ أن الحدیث المذکور
موضوع، لا یتصف بشییٴ من الصحة؛ وإذا قالوہ في کتب أحادیث
الأحکام، فالمراد بہ نفي الصحة الاصطلاحیة“․ (المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع، ص: ۲۷، قدیمي)
بلکہ علامہ زاہد الکوثری رحمہ
اللہ نے تو اس بات کو پوری وضاحت کے ساتھ صاف صاف بیان فرما دیا
ہے کہ کتب ضعفاء میں جس حدیث کے بارے میں ”لا یصح“ کہہ دیا جائے ، تو اس سے ”حَسن“ مراد نہیں لے سکتے؛
بلکہ وہ حدیث باطل ہے، ملاحظہ ہو:
”إن قول النقاد في الحدیث:
”إنہ لا یصح“ بمعنیٰ أنہ باطل في کتب الضعفاء والمتروکین،
لا بمعنیٰ أنہ حسن، وإن لم یکن صحیحاً، کما نص علیٰ
ذٰلک أھل الشأن، بخلاف کتب الأحکام، کما أوضحت ذٰلک في مقدمة ”انتقاد
المغني“․ (مقالات الکوثري، حول حدیثین
في حدیث من أحادیث رمضان،ص: ۴۲، دارالسلام)
”معجم
المصطلحات الحدیثیہ“ میں بھی یہی بات پوری
تفصیل سے مذکور ہے، ملاحظہ ہو:
قولہ:” لا یصح“․ ھي لفظةٌ یستعملھا المحدثون للإخبار عن عدمِ ثبوت الحدیث
في درجة الصحیح، فقولھم في الحدیث: ”لا یصح“، أو ”لا یثبت“،
أو ”لم یصح“، أو ”لم یثبُت“، أو ”لیس بصحیح ٍ“، أو ”لیس
بثابتٍ“، أو ”غیرُ ثابتٍ“، أو ”لا یثبت فیہ شییٴ“،
ونحو ھٰذہ الألفاظ، إذ قالوھا في کتب الضعفاء أو الموضوعات؛ فمرادھم بھا: أن
الحدیث المذکور موضوع، لا یتصف بشییٴ من الصحة․
وأما إذا
قالوھا في کتب أحادیث الأحکام؛ فمرادھم بھا نفي الصحة الإصطلاحیة؛ لأن
فیھا عدم صحة الحدیث لا یلزم أن یکون موضوعاً․ (معجم المصطلاحات الحدیثیة، حرف اللام، لا یصح،
ص: ۴۴۳، مکتبة زمزم للطباعة والنشر
والتوزیع، کراتشي)
محدثین
اس قول ” لا یصح“ کو کسی حدیث کے صحیح نہ ہونے کی خبر دینے
کے لیے استعمال کرتے ہیں، پس محدثین ان الفاظ”لا یصح“، أو ”لا یثبت“،
أو ”لم یصح“، أو ”لم یثبُت“، أو ”لیس بصحیح ٍ“، أو ”لیس
بثابتٍ“، أو ”غیرُ ثابتٍ“، أو ”لا یثبت فیہ شییٴ“، کا استعمال جب کتب ِ ضعفاء میں ہو یا کتبِ موضوعات
میں ہو تو محدثین کی ان الفاظ سے مراد اس حدیث کے موضوع
ہونے کو بتلانا ہوتا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے.
اور جب محدثین ان الفاظ کا
استعمال احادیث احکام کی کتب میں کرتے ہیں توان کی
مراد اصطلاحی صحت کی نفی کی خبر دینا ہوتا ہے، کتب
ِ احادیثِ احکام میں ”عدمِ صحت “موضوع ہونے کو مستلزم نہیں ہوتی۔
چناں چہ ! معترض کی بات (صحیح
نہ ہونے سے کسی حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا؛ کیوں
کہ ”صحیح“کے بعد ”حسن“ کا درجہ باقی ہے، لہٰذا یہ حدیث
اگر ”حسن“بھی ہو تو بھی عمل کے لیے کافی ہے)کا کسی
درجہ میں بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا، اور مذکورہ حدیث
باطل ہے۔
دوسری
روایت کی تحقیق
دوسری روایت ”جو حضرت خضر
علیہ السلام سے مروی ہے“ کے بارے میں علامہ سخاوی ، علامہ
طاہر پٹنی اور ملا علی قاری رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ اس روایت
کی سند میں بہت سے راوی ایسے ہیں، جو مجہول ہیں۔ملاحظہ
ہو:
”وکذا ماأوردہ أبو العباس أحمد
بن أبي بکر الرّداد الیماني المتصوف في کتابہ ”موجبات الرحمة وعزائم
المغفرة“ بسند فیہ مجاھیل مع انقطاعہ عن الخضر علیہ السلام أنہ:
مَن قال حین سمع صلی اللہ علیہ وسلم…إلخ“․
(المقاصد الحسنة للسخاوي، حرف
المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۱، دارالکتب العلمیة)
( الموضوعات
الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرة
الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیةملتان)
ابو العباس احمد بن ابی بکر
الرّداد یمانی صوفی اپنی کتاب ”موجبات الرحمة وعزائم المغفرة“ میں حضرت خضر علیہ السلام کی منقطع روایت
کو ایسی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں بہت سارے راوی
مجہول ہیں، (یعنی ان کا تذکرہ ہی کتب اسماء الرجال میں
نہیں ملتا)
الغرض یہ تو اُن روایت کا
حال تھا، جن سے استدلال کیا جاتا ہے۔ اب ایک نظر اُن کتب پر بھی
ڈال لینی چاہیے، جن میں سے یہ روایات نقل کی
جاتی ہیں، یا جن کتب میں یہ مسئلہ مذکور ہے۔
روایات
کے مأخذ کا بیان
چناں چہ! علامہ شامی رحمہ اللہ نے
اس مسئلہ اورروایات کے مأخذ میں کنز العباد، قہستانی، کتاب
الفردوس اور فتاویٰ صوفیہ کا حوالہ دیا ہے اورعلامہ طحطاوی
رحمہ اللہ نے کتاب الفردوس اور کنز العباد کا حوالہ دیا ہے ۔
صاحب تفسیر روح البیان نے
اس مسئلہ میں قہستانی اور قوت القلوب کا حوالہ دیا ہے۔
مجموعی طور پر مذکورہ تمام کتب غیر
معتبر ہیں، ان کتب کے صرف وہ مسائل معتبر شمار ہوں گے، جن کی تائید
دوسری معتبر کتب سے ہو جائے۔
”کنز العباد“ کے بارے میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وکذا”کنز العباد “فإنہ مملوءٌ
من المسائل الواھیة والأحادیث الموضوعة، لا عبرةَ لہ، لا عند الفقھاء
ولا عند المحدثین، قال علي القاري فيطبقات الحنفیة: ”علي بن أحمد الغوري……
ولہ ”کنز العبادفي شرح الأوراد“، قال العلامة جمال الدین المرشدي: فیہ
أحادیث موضوعة لا یحل سماعھا، انتھیٰ․(النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمة
الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقھاء والکتب،ص:۲۷، إدارة القرآن کراتشي)
اور اسی طرح ”کنز العباد“ میں
ایسے مسائل واہیہ اور احادیث ِ موضوعہ بھری ہوئی ہیں،
جن کا محدثین اور فقہاء کے نزدیک کوئی اعتبار نہیں ، ملا
علی قاری
”طبقاتِ حنفیہ“ میں فرماتے ہیں کہ علی بن احمد الغوری
کی ایک کتاب ”کنز العباد فی
شرح الأوراد“ ہے۔ علامہ جمال الدین المرشدی فرماتے ہیں : اس کتاب میں ایسی
موضوع احادیث بھری ہوئی ہیں، جن کا سننا صحیح نہیں
ہے۔
”الفتاویٰ الصوفیة“ کے بارے میں حاجی خلیفة ، علامہ زرکلی اور علامہ لکھنوی فرماتے ہیں:
”الفتاویٰ الصوفیة
في طریق البھائیة“ لفضل اللہ محمد بن أیوب المنتسب إلیٰ
ماجو․ قال صاحب کشف الظنون: قال
المولیٰ البرکلي: الفتاویٰ الصوفیة لیست من
الکتب المعتبرة، فلا یجوز العمل بما فیھا إلا إذا علم مواقفقتھا
للأصول“․ (کشف الظنون عن أسامي الکتب
والفنون، حرف الفاء: ۲/۱۲۲۵،دار إحیاء التراث
العربي، بیروت)
(الأعلام
للزرکلي، الماجوری:۶/۴۷، دار العلم للملایین،
بیروت)
(النافع الکبیر
علی الجامع الصغیر، مقدمة الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر
طبقات الفقھاء والکتب،ص:۲۷، إدارة القرآن کراتشي)
ترجمہ:”الفتاویٰ الصوفیہ
فی طریقہ البہائیہ“ علامہ فضل اللہ محمد بن ایوب جو ماجو
کی طرف منسوب ہے اور ان کی وفات ۶۶۶ ہجری میں
ہوئی، کی تصنیف ہے،مولیٰ برکلی فرماتے ہیں: ”فتاویٰ
صوفیہ معتبر کتب میں سے نہیں ہے، اس میں موجود کسی
مسئلہ پر اس وقت تک عمل نہیں کرنا چاہیے، جب تک اس مسئلہ کی
موافقت اصول کے مطابق صحیح نہ ہوجائے“۔
”قہستانی
“ کے بارے میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قہستانی کی کتاب ”جامع
الرموز“ ہے، ان کاپورانام شمس الدین محمد خراسانی قُہِسْتانی
ہے، انہوں نے ”کنز العباد“ سے نقل کرتے ہوئے مذکورہ مسئلہ ذکر کیا ہے،”
علامہ عصام الدین “قہستانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ
اپنے زمانے میں صرف کتابوں کی خرید وفروخت کرتے تھے، اور اپنے
ہم عصر علماء کے درمیان نہ ہی بطورِ فقیہ مشہور تھے اور نہ ہی
فقہ کے علاوہ کسی اور علم کے ماہر۔اس بات کی تائید اس سے
ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں ہر کچی، پکی
بات اور صحیح اور ضعیف بات بغیر تصحیح اور تدقیق کے
جمع کر دی ہے ملاحظہ ہو:
وقال المولیٰ عصام
الدین في حق القھستاني: ”إنہ صلی اللہ علیہ وسلم…لا یعرف
الفقہَ ولا غیرَہ بین أقرانہ ویوٴیدہ أنہ یجمع
في شرحہ ھٰذا بین الغث والسمین، والصحیح والضعیف من
غیر تصحیح ولا تدقیق، فھو کحاطب اللیل جامع بین
الرطب والیابس في النیل، وھو العوارض في ذم الروافض، إلخ“․ (النافع الکبیر علی الجامع الصغیر، مقدمة
الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقھاء والکتب،ص:۲۷، إدارة القرآن کراتشي)
”قہستانی “
کے بارے میں علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”والقھستاني“ کجارف سیل
وحاطب لیل․ (تنقیح فتاویٰ
الحامدیة، کتاب الحظر والإباحة: ۲/۳۵۶، حقانیة․وکذا في عمدة الرعایةعلی شرح الوقایة، ص:۱۰، مکتبة إمدادیة، ملتان)
ترجمہ:” قہستانی “ ہرمُحَقَّقْ
اور غیر مُحَقَّقْ مسائل کو جمع کرنے والے ہیں۔ (”جارف سیل
“ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح سیلاب اپنے ساتھ ہر قسم کی خس وخاشاک
کو بہا لاتا ہے، اسی طرح قہستانی نے اپنی کتاب میں ہر قسم
کے(معتبر اور غیر معتبر)مسائل جمع کر دیے ہیں،اور”حاطبِ لیل“
کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح کوئی شخص رات کے اندھیرے میں
لکڑیاں چننے والا ہو، تو اسے کوئی خبر نہیں ہوتی کہ وہ کس
قسم کی لکڑیاں چُن رہا ہے ، اسی طرح قہستانی نے بھی
اپنی کتاب میں ہر طرح کے مسائل جمع کر دیے ہیں اور اسے
کوئی خبر نہیں کہ اس نے کیسے مسائل جمع کیے ہیں ،
اس کی پرواہ کیے بغیرکہ وہ عمدہ ہیں یا غیر
عمدہ ، مُحَقَّقْ ہیں یا غیِر مُحَقَّق)
”فردوس للدیلمي“ کے بارے میں امام تیمیہ، حافظ جلال الدین سیوطی
اورشاہ عبد العزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں:
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
کہ ”فردوس للدیلمی “کے موٴلف ”الحافظ شِیرَوَیْہ
بنِ شُھْرَدَار بن شِیرَوَیْہ رحمہ اللہ“ ہیں۔
(تاریخ الإسلام للذھبي،
حرف الشین: شیرویہ، ۳۵/۲۱۹، ۲۲۰،دار الکتاب العربي، لبنان)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
فرماتے ہیں:”کتاب الفردوس فیہ من الأحادیث الموضوعات ما شاء
اللہ ومصنفہ شیرویہ بن شھردار الدیلميوإن کان من طلبة الحدیث
ورواتہ، فإن ھذہ الأحادیث التي جمعھا وحذف أسانیدھا نقلھا من غیر
اعتبار لصحیحھاوضعیفھا وموضوعھا، فلھٰذا کان فیہ من
الموضوعات أحادیث کثیرة جداً“․
ترجمہ:کتاب الفردوس میں موضوع روایات
بھری ہوئی ہیں، اس کتاب کے مصنف شیرویہ بن شہردار
الدیلمی اگرچہ حدیث کی تلاش میں پھرنے والے اور حدیث
روایت کرنے والے تھے؛ لیکن انہوں نے ان احادیث کو جن کو ان کی
سندوں کے بغیر جمع کیا ہے، صحیح ، ضعیف اور موضوع کا
اعتبار کیے بغیر ہی نقل کر دیا ہے، اسی وجہ سے اس
کتاب میں موضوع احادیث بہت زیادہ تعداد میں جمع ہیں“۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں: ”کتابُ الفردوس للدیلمي فیہ
موضوعاتٌ کثیرةٌ، أجمَع أھلُ العلم علی أنَّ مجرد َکونِہ رواہ لا یدلُّ
علی صحَّةِ الحدیثِ“․ (منھاج السنة النبویةلابن
تیمیة: ۵/۳۹،الفصل الخامس، و:۷/۱۱۰، الفصل الثاني عشر، موٴسسة
قرطبة)
ترجمہ:دیلمی کی کتاب الفردوس میں موضوع
احادیث بہت زیادہ ہیں، اہلِ علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ کسی
حدیث کا محض اس کتاب میں ہونا اس کے صحیح ہونے پر دلالت نہیں
کرتا۔
حافظ جلال الدین السیوطی
لکھتے ہیں: ”کل ما عُزِيَ لھٰوٴلاء
الأربعة-أي: الضعفاء للعقیلي، الکامل لابن عدي، التاریخ للبُغدادي،
التاریخ لابن عساکر- أو للحکیم الترمذي في نوادر الأصول أو للحاکم في
تاریخہ أو لابن جارود أو للدیلمي في مسند الفردوس فھو ضعیفٌ، فلیستغنِ
بالعَزْوِ إلیھا أو إلیٰ بعضھا عن بیان ضُعفہ “․ (جمع الجوامع، دیباجة قسم الأقوال من جمع الجوامع
(الجامع الکبیر): ۱/۲۱، دارالکتب العلمیة)
ترجمہ: ”․․․․․․․․دیلمی کی مسند فردوس میں جو کچھ
مذکور ہے، وہ ضعیف ہے، کسی حدیث کی نسبت کا اِس کتاب کی
طرف ہونا ہی اُس (ضعیف ) حدیث کے ضعف کو بیان کرنے سے
مستغنی کر دیتا ہے“۔
الدکتور نور الدین عتر رحمہ اللہ
حافظ صاحب رحمہ اللہ کی اس بات کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس
(مطلق حکم)سے مراد وہ احادیث ہیں، جو صرف انہی کتب میں
مذکور ہو ں، ان کے علاوہ کہیں اور مذکور نہ ہوں ، یعنی: یہ
حضرات اپنی کتب میں نقل کرنے والی احادیث میں متفرد
ہوں، ملاحظہ ہو:”مصادِرُ نصَّ العلماء علیٰ أن تفرُّدھا بحدیثٍ
أمارةٌ علیٰ ضُعفہ، قال السیوطي في دیباجة کتابہ الجامع
الکبیر: ”کل ما عُزِي لھٰوٴلاء الأربعة…إلخ“․ (منھج النقد في علوم الحدیث، الباب الرابع في علوم الحدیث
من حیث القبول أو الرد، الفصل الثاني في أنواع الحدیث المردود، مسادر
الحدیث الضعیف، ص: ۲۹۷، ۲۹۸، دارالفکر، بیروت)
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:”……ولکنہ غیر مُتْقِنٍ
ولا یُمَیِّزُبین الصحیحِ والسقیمِ، ومِن ثَمَّ
امْتَلأَ کتابُہ من الأحادیث الموضوعة والواھیة“․ (بستان المحدثین للدھلوي، فارسي،ص: ۱۶۲، سعید․ ومترجم بالعربیة للدکتور محمد أکرم الندوي، بحث فردوس
للدیلمی،ص:۱۸۰، دارالغُرب الإسلامي)
ترجمہ: ” لیکن ثقہ اور قابل
اعتماد نہیں ہیں، یہ صحیح روایت اور ضعیف روایت
کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کرتے، اسی وجہ سے ان کی (مذکورہ
) کتاب موضوع اور بے سند احادیث سے بھری ہوئی ہے۔
مذکورہ
کتب سے مسئلہ لینے کا حکم
ان کتب میں مذکور کسی مسئلہ
پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس بارے میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں:
”والحکم في ھٰذہ الکتب
الغیر المعتبرة أن لا یُوٴخَذ منھا ما کان مخالفاً لکتب الطبقة
الأعلیٰ، ویُتوقَّفُ في ما وُجِد فیھاما لم یدخُل
ذالک في أصلٍ شرعيٍ“․ (النافع الکبیر علی
الجامع الصغیر، مقدمة الجامع الصغیر، الفصل الأول في ذکر طبقات الفقھاء
والکتب،ص:۲۷، إدارة القرآن کراتشي)
ترجمہ: ان غیر معتبر کتابوں (میں
سے کسی مسئلہ کے لینے ) کا حکم یہ ہے کہ ان میں مذکور کوئی
ایسا حکم جو ان کتابوں سے زیادہ معتبر کتابوں میں موجود مسئلہ
کے مخالف ہو ، نہیں لیا جائے گا؛ بلکہ اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں
اس وقت تک توقف کیا جائے گا، جب تک اس مسئلہ کا کسی اصلِ شرعی میں
داخل ہونا نہ معلوم ہو جائے، (یعنی : دوسری معتبر کتب سے اس کے
صحیح ہونے کی تصدیق نہ ہو جائے۔)
صاحب
روح البیان اور علامہ طحطاوی کے اپنے قول کا جائزہ
اب صاحب تفسیر روح البیان کی اس بات:
”یقول الفقیر: ”قد
صحَّ من العلماء تجویزُ الأخذِ بالحدیثِ الضعیفِ في العملیاتِ،
فکونُ الحدیثِ المذکورِ غیرَ مرفوعٍ لا یستلزِم ترکَ العملِ
بمضمونہ، وقد أصاب القھستانيُّ في القول باستحبابہ “․ترجمہ:فقیر کہتا ہے کہ : ”(فضائلِ)اعمال کے باب میں
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کا جواز علماء سے صحت کے ساتھ ثابت ہے، پس
مذکورہ حدیث کا غیر مرفوع ہونا، اُس کے مضمون پر عمل نہ کرنے کو
مستلزم نہیں۔ اور قہستانی اپنی استحباب کی رائے میں
درست ہیں“
اور علامہ طحطاوی کی عبارت:
”وبمثلہ یُعْمَلُ فِيْ
فضائلِ الأعمالِ“ (ترجمہ:اور فضائل
میں اس طرح کی باتوں پر عمل کر لیا جاتا ہے)کابھی جائزہ
لے لینا چاہیے۔
اصول حدیث کی کتابوں میں
یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ لکھی ہوئی موجود ہے کہ فضائلِ
اعمال میں ان روایات کو ہی لیا جاتا ہے، جو صحیح،
حسن یا ہلکے درجے کی ضعیف ہوں، جو موضوع یا شدید ضعیف
ہوں ، ان پر عمل نہیں کیا جاتا، اورجب اس میں تین شرائط
موجود ہوں۔
فضائل
اعمال میں حدیثِ ضعیف پر عمل کرنے کی شرائط:
جمہور علماء کے نزدیک، فضائل کے باب میں
ہلکے درجے کی ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے؛ البتہ اس جوازِ
عمل کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں،جن کو حافظ سخاوی
نے ”القَولُ البَدِیع“میں ذکر کیا ہے،اور اگر ضعیف حدیث میں
مذکورہ تین شرطوں میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو اس حدیث پر
عمل کرنا جائز نہیں ہے۔موصوف فرماتے ہیں:
”سمعتُ شیخَنا ابن حجر أي
العسقلانيالمصريمِرَاراً وکَتَبَہ لي بخَطّہ یقول: شَرْطُ العَمَلِ بالحدیث
الضعیف ثلاثةٌ: الأوّل مُتَّفَقٌ علیہ، وھوأنْ یکونَ الضُعفُ غیرَ
شدیدٍ، فیَخْرُجُ مَن انْفَرَدَ مِنَ الکَذّابِین والمُتّھَمِین
ومَنْ فَحُشَ غَلَطُہ، والثاني:أن یکونَ مُندَرِجاً تحتَ أصلٍ عامٍ، فیخرُج
ما یُخْتَرَعُ بحیثُ لا یکون لہ أصلٌ أصلاً، والثالث:أن لا یُعْتَقَدَ
عند العَمَلِ بہ ثبوتُہ لئلا یُنْسَبَ إلی النبي صلّی الله علیہ
وسلّم ما لم یَقُلْہ․ قال: والأخیران عن ابن
السلام وابن دَقِیقِ العید، والأوّلُ نَقَلَ العلائي الاتّفاقَ علیہ“․ (القول البدیع للسخاوي، خاتمة،ص:۴۹۶، دار الیسیر، المدینة
المنورة)
میں نے اپنے شیخ حافظ ابن
حجر سے کئی دفعہ سنا ہے - حافظ ابن حجر
نے مجھے بذاتِ خود یہ شرائط لکھ کر بھی دیں-
کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنے کی تین شرطیں ہیں:
پہلی شرط اتفاقی ہے کہ ضعف،
شدید نہ ہو،لہذا اس شرط سے وہ کذّابین،متہّمین اورفاحش الغلط
رُواة نکل گئے، جو نقلِ روایت میں منفرد(تنہا) ہوں۔
دوسری شرط یہ ہے روایت
دین کے اصلِ عام کے تحت داخل ہو،اس شرط سے وہ روایتیں نکل گئیں،
جو گھڑی گئی ہوں،اس طور پر کہ ان کی کوئی اصل نہ ہو۔
تیسری شرط یہ ہے کہ
حدیث پر عمل کے وقت ثبوتِ حدیث کا اعتقاد نہ ہو؛تاکہ آپ صلّی
الله علیہ وسلّم کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ ہو
جائے، جو آپ صلّی الله علیہ وسلّم نے نہ فرمائی ہو۔
حافظ ابن حجر نے مزید فرمایا کہ آخری
دو شرطیں، ابن عبد السلام
اورابن دَقِیق العید
سے منقول ہے،اور شرطِ اول پر علامہ علائی نے علماء کا اتفاق نقل کیا ہے“۔
مذکورہ تفصیل کی روشنی
میں صاحب روح البیان کے قول کی حیثیت بالکلیہ
ختم ہو جاتی ہے؛اس لیے کہ مذکورہ شرائط ضعیف حدیث پر عمل
کرنے کی ہیں ، نہ کہ موضوع، منقطع یا بے سند حدیث پر عمل
کرنے کی۔ اور یہ بات پوری تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ
روایات موضوع یا بے سند ہیں نہ کہ ضعیف۔
قوت
القلوب کی عبارت سے متعلق وضاحت
البتہ! صاحبِ روح البیان نے جو بات ”قوت القلوب “ کے حوالے سے ذکر
کی ہے، اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ ہم نے مذکورہ کتاب میں
اپنی بساط بھر کوشش کی کہ صاحبِ روح البیان کی نقل کردہ
بات ہمیں مل جائے؛ لیکن ہم اپنی کوشش میں کامیاب نہ
ہوسکے، پوری کتاب میں مظان اور غیرِ مظان دونوں جگہ خوب تلاش کے
باوجود ہماری مطلوبہ عبارت ہمیں نہ مل سکی؛ تاہم ”صاحب ِ قوت
القلوب“ کے طرز سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ بات بھی دیگر
مباحث کی مثل بغیر سند کے مذکور ہوگی، بشرطِ موجودگی اگر
ایسا ہی ہوا تو پھر اس عبارت کا جواب بھی مذکورہ تحریر میں
آچکا ہے، اور اگر یہ بات سنداً موجود ہو تو جب وہ بات سامنے لائی جائے
گی تو اس کابھی جائزہ لے لیا جائے گا۔
اور علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کے
قول ”وبمثلہ یُعْمَلُ فِيْ فضائلِ الأعمالِ“ (ترجمہ:اور فضائل میں اس طرح کی باتوں پر عمل کر لیا
جاتا ہے)کے بارے میں علامہ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولاتغترَّ بقول الطحطاوي في حاشیتہ
علی مراقي الفلاح آخر باب الأذان ”بعد ذکرہ ھٰذا الحدیث عن کتاب
الفردوس وکذا رُوي عن الخضر علیہ السلام، وبمثلہ یعمل في فضائل الأعمال“فھو
کلام مردود بما قالہ الحافظ… وقال الحافظ ابن تیمیة في منھاج السنة:
إن کتاب الفردوس فیہ من الأحادیث الموضوعة…إلخ․ (المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع، ص: ۱۷۰، قدیمي)
ترجمہ: ”اور تو علامہ طحطاوی کے اس قول سے دھوکہ میں نہ پڑناجو
انہوں نے ”مراقی الفلاح“ کے حاشیے میں باب الأذان کے آخر میں
ذکر کی ہے․․․․․․کہ” فضائل ِ اعمال میں
اس جیسی روایات پر عمل کر لیا جاتا ہے“، پس ان کا یہ
کلام رد کر دیا جائے گا؛ بوجہ اس قول کے جو حافظ ابن تیمیہ کاان کی کتاب ”منہاج السنة“ میں
مذکور ہے کہ کتاب الفردوس میں تو موضوع احادیث بھری ہوئی
ہیں․․․․․․إلخ“۔
اس پوری بحث سے یہ نتیجہ
نکلتا ہے کہ ان روایات پر عمل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں
ہے۔
علامہ
ابن عابدین اور علامہ طحطاوی رحمہما اللہ کا دفاع
اور اس بحث سے علامہ ابن عابدین
اور علامہ طحطاوی رحمہما اللہ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔
اولاً تو اس بنا پر کہ علامہ ابن
عابدین کی ذکر کردہ عبارت کو دیکھا
جائے کہ اس میں ان کا اپنا کوئی بھی کلام نہیں ہے، پہلے
انہوں نے علامہ قہستانی
کا قول ِ استحباب نقل کیا ہے، اس کے بعد علامہ جراحی کا قول:”ولم یصِحَّ في المرفوع
من کل ھٰذا شییٴٌ“ نقل کیا ہے، ان کے طرز سے تو یہ معلوم ہوتاہے کہ
اس باب میں کوئی صحیح مرفوع حدیث منقول نہیں ہے؛کیوں
کہ ان کا استحباب والے قول کے بعد اس قول”ولم یصِحَّ في المرفوع
من کل ھٰذا شییٴٌ“ کو ذکر کرنا اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
اور علامہ طحطاوی رحمہ اللہ کی
ذکردہ عبارت کی بھی یہی صورتِ حال ہے کہ انہوں نے قہستانی
اور کتاب الفردوس سے نقل کیا ہے؛ البتہ آخر میں ان کا اپنا قول : ”وبمثلہ یُعمَل في
الفضائل“ اس کی حیثیت
علامہ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ کے قول سے واضح ہو چکی ہے۔
ثانیاً اس وجہ سے ان حضرات
نے جو استحباب کا قول نقل کیا ہے ، ایسا آج سے دو صدیوں قبل کیا
تھا، عین ممکن ہے کہ اس دور میں بدعتیوں کے ہاں اس مسئلہ میں
غلو نہ ہو؛ اس لیے انہوں نے استحباب کا حکم لگایا اور بعض نے اسے ہی
آگے نقل کر دیا، اور اگر اس دور میں بھی اس مسئلہ میں غلو
ہوتا، جیسا کہ آج اظہر من الشمس ہے تو یقینا اس مسئلہ میں
بھی دوسری بدعات کی طرح بدعت کا حکم لگایا جاتا۔
اور اگر بالفرض اسے مستحب ہونا تسلیم
بھی کر لیا جائے تو پھر بھی آج کے دور میں اس پر عمل نہیں
کر سکتے؛ کیوں کہ فقہ کا مسلّمہ قاعدہ ہے کہ جب کسی مستحب کام کو اس
کے درجہ سے بڑھا دیا جائے تو وہ کام ممنوع ہو جاتا ہے، اب ! موجودہ دور میں
مذکورہ مسئلہ کے بارے میں غور کر لیا جائے کہ اس مسئلہ کو نہ صرف سنتِ
مقصودہ؛ بلکہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خاص تعظیم سمجھی جاتی ہے۔اور ایسا نہ کرنے والے کو
بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے، نہ کرنے والے کو ملامت اور لعن طعن کی
جاتی ہے، اسے حنفیت کا مخالف قرار دیا جاتا ہے؛ بلکہ اس عمل کو
اہل السنة والجماعة کی پہچان سمجھا جاتا ہے؛ حالاں کہ اگر یہ عمل ایسا
ہی اہم اور ضروری ہوتا تو جس طرح اذان جیسا عظیم الشان
امر تواتر اور قوی دلائل کے ساتھ کتبِ معتبرہ میں مذکور ہے ، بالکل اسی
طرح یہ عمل بھی مذکور ہونا چاہیے تھا؛ اس لیے کہ یہ
عمل بھی اذان کے وقت کا ہی عمل ہے؛لیکن اس کے برخلاف یہ
عمل موضوع اور منقطع حدیث اور چند غیر معتبر کتب میں موجود ہے۔لہٰذا
اس عمل کو اس کے مرتبے سے اس طرح غلو کی حد تک بڑھا دینا بھی اس
عمل کے ممنوع ہونے کے لیے کافی ہے، ملاحظہ ہو:
قال ابن منیر:
”فیہ أن المندوبات قد تنقلب مکروہات، إذا رفعت عن مرتبتھا… إلخ“․(فتح الباري، کتاب الصلاة، باب الانتفال والإنصراف عن الیمین:
۲/۴۳۰، قدیمي)
”ابن منیر فرماتے ہیں :( اس حدیث سے یہ
بات بھی ثابت ہوتی ہے ) کہ مندوبات (یعنی: مستحبات) کو جب
ان کے مرتبہ سے بلند کر دیا جائے تو وہ مکروہات کے حکم میں بدل جاتے ہیں“۔
قال الطیبي:”
وفیہ أن من أصر علیٰ أمر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل
بالرخصة، فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علیٰ
بدعةٍ أو منکرٍ“․ (شرح الطیبي،کتاب الصلاة،
باب الدعا في التشھد، الفصل الأول، رقم الحدیث:۹۴۶، ۲/۳۷۴، إدارة القرآن والعلوم،
کراتشي)
طیبی فرماتے ہیں: ( اس حدیث سے یہ
بات بھی ثابت ہوتی ہے ) کہ جو شخص کسی امرِ مندوب پر اصرار کرے
(یعنی ان پر مسلسل اس طرح عمل کرے کہ وہ اس سے کبھی چھوٹنے ہی
پائے) اور اس پر عمل کرنے پر (مسلسل) پُر عزم رہتا ہو، تو وہ شیطان سے اپنے
حصے کی گمراہی وصول کرنے والا ہے، پس (جب مندوبات پر اصرار کرنے والے
کا یہ حال ہے تو) بدعات یا منکرات پر (اسی طرح) اصرار کرنے والے
کا کیا حال ہو گا؟!“۔
(وکذا في مرقاة المفاتیح،کتاب
الصلاة، باب الدعا في التشھد، الفصل الأول، رقم الحدیث:۹۴۶، ۳/۳۱، رشیدیة)
(وکذا في التعلیق
الصبیح،کتاب الصلاة، باب الدعا في التشھد، الفصل الأول، رقم الحدیث:۹۴۶، ۱/۵۴۹، رشیدیة)
(وکذا في السعایة،
کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: ۲/۲۶۳، سھیل اکیدمي)
علامہ
عبد الحی لکھنوی رحمة اللہ علیہ کا فتویٰ
اب آخر میں ہماری متعلقہ
بحث جیسا ہی ایک سوال کا جواب ذکر کیا جاتا ہے، جو ایسی
شخصیت کا جاری کردہ ہے، جو دیوبندیت اور بریلویت
کے زمانے سے پہلے کی ہے، اور وہ ہیں علامہ عبد الحی لکھنوی
رحمة اللہ علیہ، ملاحظہ فرمائیں:
” این تقبیل را در
بعض کتب فقہ مستحب نوشة است نہ واجب ونہ سنت، مثل کنز العباد وخزانة الروایات،
وجامع الرموز وفتاویٰ صوفیہ وغیرہ؛ مگر در اکثر کتبِ
معتبرہ متداولہ نشانِ آن نیست، در آن کتب کہ درانھا این مسئلہ مذکور
است غیر معتبر اند؛ چنانکہ جامع الرموزوفتاویٰ صوفیہ وکنز
العباد وغیرہ، ایں وجہ کہ درین کتب رطب ویابس بلا تنقیح
مجتمع است، تفصیل آن در رسالہ من ” النافع الکبیر لمن یطالع
الجامع الصغیر“ موجود است، درین باب فقھاء نقل می کنند آنھا
بتحقیق محدثین صحیح نیستند․․․․․․․․إلخ“۔(مجموعة الفتاویٰ،
کتاب الکراہیة:۴/۳۲۵، رشیدیة)
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے: ”اس
انگوٹھے چومنے والے مسئلہ کو فقہ کی بعض کتابوں میں مستحب کہا گیا
ہے، واجب یا سنت نہیں، مثلاً: کنز العباد ، خزانة الروایات،
جامع الرموز اور فتاویٰ صوفیہ وغیرہ (میں یہ
مسئلہ مذکور ہے )،مگر اکثر معتبر کتبِ فقہ میں ایسا کوئی مسئلہ
مذکور نہیں ہے، اور جن کتب میں یہ مسئلہ موجود ہے ، وہ کتب
معتبر نہیں ہیں؛ اس لیے کہ ان کتابوں میں ہر رطب ویابس
کو اس بات کی تصریح کیے بغیر” کہ کون سی بات صحیح
ہے اور کون سی نہیں“، ان میں جمع کر دیا گیا ہے، اس
بات کی پوری تفصیل میرے رسالے ” النافع الکبیر لمن یطالع
الجامع الصغیر“ میں
موجود ہے، اس انگوٹھا چومنے والے مسئلہ میں (ان کتابوں کے مصنّفین)فقہاء
نے جو کچھ کہا ہے، محدثینِ کرام نے اسے صحیح قرار نہیں دیا“۔
مذکورہ بالا تفصیل سے متعلقہ
مسئلہ پوری طرح منقح ہو کر سامنے آچکا ہے، اللہ جَلَّ جَلاَلُہ کے حضور دعا ہے کہ وہ ہمیں جملہ
بدعات ومنکرات سے محفوظ رکھے اور اتباعِ سنت نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم کی توفیق مرحمت فرمائے ، اور ہم سب کا خاتمة بالخیر کرتے
ہوئے ہمارا حشر اس جماعتِ قدسیہ کے ساتھ فرمائے ،جس کو دنیا میں
ہی ”رضي اللّٰہ عنہم ورضواعنہ“ کا پروانہ مل گیا تھا، میری مراد صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم ہیں۔
***
---------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4،
جلد: 98 ، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء